27 فروری 2012 - 20:30

امریکہ دنیا کے تیل کے سب سے بڑے خزانے خلیج فارس کے منہ کے بالکل سامنے موجود بحر عرب سے لے کر تیل کی دوسری بڑی بین الاقوامی تجوری یعنی کیسپین سمندر کے ساحلوں تک زمینی راستے کھولنا چاہتا ہے اور بلوچستان کے زیر زمین معدنی ذخائر سے مستفید ہونا چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا اُبھرتا ہوا حریف چین گوادر کی بندرگاہ پر موجود رہے یا وسطی ایشیائی ریاستوں کا تیل اور ایران کی گیس بلوچستان کے راستے سے جنوبی ایشا کے ممالک تک پہنچ جائے۔

ابنا:  آج کل بلوچستان ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر زیر بحث ہے۔ قارئین آیئے مختصراً اس بات کا احاطہ کریں کہ بلوچستان کا تاریخی پس منظر اور اس خطے میں علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے اسٹرٹیجک اہداف کیا ہیں اور حالات کو سدھارنے کیلئے پاکستانی قیادت کیا کر سکتی ہے۔

تاریخی پس منظر: اٹھارویں صدی عیسوی میں بلوچستان افغانستان کا ہی ایک حصہ تھا۔ 1754ء میں افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ دورانی نے ایک بہت اچھے ناظم اور بہادر شخص میر محمد ناصر خان کو قلات کی ریاست، جو 1666ء میں وجود میں آئی تھی، کا خان تعینات کر دیا۔ ناصر خان بلوچی نہیں بلکہ بروہی تھے اس لئے والی قلات کو خان آف قلات کہا گیا۔ یاد رہے خان بلوچی لفظ نہیں۔ ساتھ ہی قلات کے خان کے نیچے چار ریاستوں کا نظم و نسق بھی دے دیا گیا۔ جن کے نام یہ تھے :ساراواں یعنی نوشکی اور مری بگٹی علاقے، جھلاوان یعنی سہراب اور لسبیلہ کا علاقہ مکران جس کا ایک سکھ چیف تھا اور کاچی جس میں ڈی جی خان تک کا وہ علاقہ شامل تھا جو نصیر خان کو پانی پت کی تیسری جنگ میں ابدالی کی مدد کرنے پر دیا گیا تھا۔ ان ریاستوں کے کچھ لوگوں کو جاگیریں دے کر سردار بنا دیا گیا، لیکن ان سرداروں کا کام صرف جھگڑے نمٹانا تھا، ان کے اختیارات بہت محدود تھے۔ فیصلے چیف جج کرتے تھے اور آخری فیصلہ نصیر خان کا ہوتا تھا۔ سرداروں کا صرف یہ کام تھا کہ ہنگامی حالات میں لوگوں کو اکٹھا کیا جائے، تاکہ خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ 1854ء میں قلات کی چاروں ریاستوں کو خان آف قلات نے انگریزوں کے آگے صرف 50000 روپے کے عوض بیچ دیا۔ اُس وقت قلات ڈویژن کا کل رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تین لاکھ سے بھی کچھ کم تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں انگریزوں نے افغانستان پر قبضہ کیا اور ڈیورنڈ لائن لگا کر مری، بگٹی اور جیکب آباد کو ملا کر برٹش بلوچستان بھی قائم کر دیا اور اس پر اپنا ایک ایجنٹ بیٹھا دیا، ایران سے سرحد سیدھی کی اور اومان کو کچھ ساحلی علاقے دیئے۔ جو بعد میں جنرل ایوب خان کے دور میں واپس ہوئے۔1947ء میں پاکستان بنا، لیکن 1970ء میں ون یونٹ توڑ کر قلات ڈویژن اور کوئٹہ ڈویژن کو اکٹھا کر کے پرانے اور نئے بلوچستان کو ملا دیا گیا۔ 1976ء میں پاکستان میں آئینی اور قانونی طور پر سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن آج بھی ہم جوان نسل غریب بلوچوں سے بات کرنے کی بجائے اُن غیرآئینی ارب پتی سرداروں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جو بلوچستان میں رہ بھی نہیں رہے۔ بیرونی طاقتوں کے بلوچستان میں اہداف: امریکہ دنیا کے تیل کے سب سے بڑے خزانے خلیج فارس کے منہ کے بالکل سامنے موجود بحر عرب سے لے کر تیل کی دوسری بڑی بین الاقوامی تجوری یعنی کیسپین سمندر کے ساحلوں تک زمینی راستے کھولنا چاہتا ہے اور بلوچستان کے زیر زمین معدنی ذخائر سے مستفید ہونا چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا اُبھرتا ہوا حریف چین گوادر کی بندرگاہ پر موجود رہے یا وسطی ایشیائی ریاستوں کا تیل اور ایران کی گیس بلوچستان کے راستے سے جنوبی ایشا کے ممالک تک پہنچ جائے۔

روس یہ تو بالکل نہیں چاہتا کہ بلوچستان پر امریکہ قابض ہو جائے، لیکن وہ بلوچستان میں بدامنی اس لئے چاہتا ہے کہ وسطی ایشائی ریاستوں کو بحر عرب کی طرف جانے کا اگر کوئی راستہ مل گیا تو پھر اُن کا روس پر انحصار بالکل ختم ہو جائے گا اور روس اپنی من مانی نہیں کر سکے گا اور وسطی ایشائی ریاستوں کا تیل اور گیس موجودہ سستے داموں پر روس کو میسر نہیں رہے گا۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ امریکہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرے اور خطے میں خود بھی موجود رہے تاکہ گوادر بندر گاہ Develop ہو کر ممبئی کی بندرگاہ کے کاروبار کو متاثر نہ کر سکے اور ہندوستان افغانستان میں موجود رہ کر نہ صرف پاکستان کو مشرقی اور مغربی دنوں محاذوں پر جکڑے رکھے اور سیکورٹی کے مسائل پیدا کرے بلکہ ہندؤ تاجر افغانستان اور بلوچستان کے راستے وسطی ایشائی ریاستوں سے تجارت بھی کر سکیں۔ ایران ہمارا پڑوسی مسلمان ملک ہے جس کی خلوص نیت پر تو ہمیں کوئی شک نہیں، لیکن ایران کا مفاد اس میں ہے کہ امریکہ تو بلوچستان میں نہ آئے لیکن اگر گودار ایک Open deep sea port بن گئی تو پھر ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی طرف وسطی ایشائی ریاستوں والے اور افغانی نہیں دیکھیں گے چونکہ یہ ایک کٹھن اور لمبا راستہ ہے۔ چین پاکستان کا ایک آزمایا ہوا مخلص دوست ہے اس کا مفاد اس میں ہے کہ بلوچستان میں امن رہے، تاکہ وہ بلوچستان میں سین ڈک منصوبے کی طرح اور بھی سرمایہ کاری کر سکے اور گودار کی بندرگاہ کو اپنے کمرشل اور اسٹرٹیجک مفادات کیلئے بھی استعمال کرے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کے خلاف چین نے پچھلے دس سالوں سے صرف اس لئے اپنی آنکھیں نیم بند کی ہوئی ہیں کہ وہ اُن مسلمان انتہا پسند تحریکوں سے ڈرتا ہے، جو پاکستان دوست چین کے اندر جا کر بھی تخریب کاروائیاں کرنے سے سے باز نہیں آتے، حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بھی بالکل منافی ہے۔ بیرونی مداخلت: مذکورہ بالا مفادات کے حصول کی خاطر بیرونی طاقتیں خصوصاً امریکہ اور ہندوستان بلوچستان میں پوری قوت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ 2 مئی 2005ء کو بلوچستان سے متعلق ایک مفصل رپورٹ ڈیلی میل میں چھپی جس میں سابقہ سویٹ یونین کی KGB کے دو افغان نژاد افسران جو اب ماسکو میں رہائش پذیر ہیں، نے یہ تسلیم کیا کہ 1979ء میں سویٹ یونین کا افغانستان پر حملے کا مقصد بلوچستان کے راستے وارم واٹرز تک رسائی تھا، اس لئے انہوں نے بلوچستان لبریشن آرمی BLA کی بنیاد رکھی۔

وہ افسران کہتے ہیں کہ پاکستان نے جس ہمت سے اس سویٹ یلغار کا مقابلہ کیا وہ سویٹ یونین کے لئے بھی حیران کن تھا۔ BLA کی بنیاد بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن BSO کے بائیں بازو کے طلباء پر رکھی گئی، جب سویٹ یونین ٹوٹا تو BLA کی مالی معاونت ختم ہو گئی۔ اس کے بعد KGB کے ان افسران کے مطابق 9/11 کے بعد امریکہ اور ہندوستان نے BLA میں دوبارہ روح پھونک دی اور اس مداخلت کا آغاز 17 جنوری 2002ء کو اس وقت ہوا جب KGB کے افسروں کے مطابق دو امریکن، دو ہندوستانی اور ایک افغان ڈرائیور ایک ٹیوٹا ہائی لکس میں بیٹھ کر افغانستان سے پاکستانی بلوچستان کے مسلم باغ کے علاقے میں د اخل ہوئے اور بعد میں کوہلو اور ڈیرہ بگٹی پہنچ گئے۔ اس کے بعد نواب خیر بخش مری کے بیٹے بلاچ مری کی سربراہی میں پہلا ٹرینگ کیمپ کوہلو اور کہان کی پہاڑیاں میں کھولا گیا۔ کیمپ میں تیس رضا کاروں کو تربیت دی گئی۔ اسلحے کی پہلی کھیپ افغانستان سے پہنچی۔ اس کے بعد ہندوستان سے اسلحے کی ترسیل شروع ہو گئی۔ KGB کے افسروں کے مطابق پنجاب اور سندھ کے صوبوں کے ملاپ کے پاس ہندوستان کے سرحدی قصبے کشن گڑھ اور شاہ گڑھ میں تخریب کاری کی تربیت دے کر پہلے گولہ بارود اونٹوں پر سرحد سے پار لایا جاتا، اس کے بعد سویلین ٹرکوں میں کریٹوں میں بند کر کے اور اوپر دوسرا سامان اور ترپال دے کر یہ گولہ بارود چند گھنٹوں میں تقریباً 150 کلومیٹر دور واقع سوئی اور کوہلو پہنچا دیا جاتا۔

یہ افغانستان سے بھی زیادہ اچھا راستہ تھا، چونکہ ہندوستان سے جا کر صرف 45 کلومیٹر کے فاصلے پر بچھائی ہوئی سوئی۔کاشمور، اوچ۔ملتان اور سوئی۔سکھر گیس پائپ لائن کو اڑانا بھی بہت آسان تھا۔ KGB کے سابقہ افسران کے مطابق یہ سب کچھ RAW کی منصوبہ بندی سے ہوتا تھا۔ بعد میں بلوچستان میں تقریباً 50 تربیت کیمپ قائم ہوئے جن میں 300 سے 550 تخریب کاروں کو تربیت دی گئی۔ جن کو 200 ڈالرز ہر ماہ ملتے تھے اور بڑا نقصان کرنے پر بونس بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ دوبئی اور Oman کی طرف سے تخریب کاروں کو ساحلی راستوں سے بھی بلوچستان بھیجا جاتا ہے۔ جب KGB کے سابقہ افسروں سے سوال ہوا کہ سابقہ سویٹ یونین کے اہداف کیا تھے تو انہوں نے کہا: "To Secure Convenient Corridor to Warm Waters and Indian Ocean ...... First Control Kabul, then raise double bogey of Pakhtunistan and great Baluchistan and detach part of Baluchistan." اس مقصد کیلئے قندھار جلال آباد اور زاہدان کے ہندوستانی کونسل خانوں میں کام کرنے والےRAW کے لوگوں کیلئے KGB کے سابقہ افسروں کے مطابق فنڈز 700فیصدی بڑھا دیئے گئے، جس کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ آج سے سات سال پہلے 2005ء میں جب ان KGB کے افسروں کو یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان تو امریکہ کا صف اول کا اتحادی ہے۔ امریکہ پاکستان کو کیوں نقصان پہنچائے گا تو اُن کا جواب تھا۔ "Front line ally! Are you kidding? Americans are using Pakistan and Pakistani people would soon find it out ...... except for Baluchistan rest of Pakistan is useless for them". یعنی صف اول کے اتحادی! آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟ امریکہ پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہا ہے یہ پاکستانیوں کو جلد پتہ چل جائے گا۔ امریکہ کیلئے بلوچستان کے علاوہ پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں۔ جب KGB کے سابقہ افسروں سے پوچھا گیا کہ اب پاکستان کیا غلطی کر رہا ہے تو انہوں نے کہا۔ "We have yet to see any Pakistani effort to contact the ordinary Balochs. They are still wooing the same sardars who are living on the black-mailing money since creation of Pakistan." یعنی پاکستانی حاکم بلوچیوں سے رابطے میں نہیں، وہ صرف اُن سرداروں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں جو 1947ء سے بلیک میلنگ سے حاصل شدہ فنڈز پر مزے اُڑا رہے ہیں۔ جب یہ پوچھا گیا کہ سویٹ یونین کے وقت کی BLA اور امریکن۔ہندوستانی BLA میں کیا فرق ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرانی BLA نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ اب یہ سرداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ پرانے وقتوں میں میڈیا کا موثر استعمال ناممکن تھا اب یہ لوگ میڈیا کا زبردست استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب ایک ایسے صحافیوں کی فہرست تیار کر لی ہے جو حکومت پاکستان کے خلاف ہر رپورٹ کو خوشی سے چھاپتے ہیں خواہ وہ سچی ہو یا جھوٹی۔ اس ساری کارروائی کے پیچھے پینٹا گون یعنی امریکی حکومت ہے۔ قارئین، کالم کیلئے مخصوص محدود Space میں سب کچھ نہیں سمویا جا سکتا۔ لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت خلوص نیت سے آگے بڑھے تو بلوچستان کے معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات صرف اور صرف ہماری اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بدولت رونما ہوئے اور بدقسمتی سے آج بھی مرکزی یا صوبائی حکومت میں ارباب اختیار اس بصیرت سے عاری ہیں، جو ایسے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے۔

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنی نااہلیوں کی سیاہی اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کے منہ پر ملتے ہوئے نہیں تھکتے اور کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی قصور نہیں، فوج اور ایجنسیوں پر کنٹرول ممکن نہیں اور یہ بلوچستان کے گلستان میں بھڑکنے والی آگ ایجنسیوں کی ہی لگائی ہوئی ہے۔ سیاسیدان اور سردار سب معصوم ہیں۔ بے گناہ افغانیوں اور عراقیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے امریکی اور کشمیریوں کو قتل کرنے والے ہندوستانی، دراصل بلوچوں کے حق خودارادیت کے لئے مخلصی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ہے او